محمد ظہیرعالم سے گفتگو ٹیچرز ڈے پر

محمد ظہیرعالم سے گفتگو ٹیچرز ڈے پر

دنیا بھر میں 5 اکتوبر  کو ٹیچرز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ ٹیچرز ہمارے لیے منزلیں آسان کرتے ہیں۔ ٹیچرز کو بنانے والے ادارے اور تربیتی سیشن ایک کڑی ہیں بہترین تعلیم کی۔

 محمد ظہیرعالم  سن  73  سے 2019 تک کراچی میں پرائیوٹ  اسکول سے درجنوں طلباء وطالبات کو میٹرک سسٹم  تعلیم سے روشناس کرایا۔ آج بھی ان کے  اسکول میں پڑھائے ہوئے بچے بہترین جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔  ٹیچرز ٹرینگ کورس کرائے اور تقریباً ٥٠٠ لڑکیوں کو مونٹیسوری ٹرینگ دی اور ڈمائی ہزار خواتین کو مختلف ٹیچرز کورسز کرائے۔

کوویڈ کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا مگر آج بھی اپنی ذاتی لائبریری موجود ہے جس میں  دس ہزار کتب ہیں اور ایک ہزار سے زائد کتاب ٹیچرز ٹرینگ پر ہیں اور مونٹیسوری اور ہر معلومات پر کتب موجود ہیں۔

آج ہم ان سے خصوص گفتگو میں جانیں گے پاکستان کے نظام تعليم پر –

پاکستان کے تعلیمی نظام کا عمومی جائزہ :

کیا آپ ہمیں پاکستان کے موجودہ تو نظام کا  جائزہ  دے سکتے ہیں ؟ آج کل اس نظام کو در پیش اہم چیلنجز کیا ہیں ؟

پاکستان کی قومی تعلیمی پاليسى  میں تو  مقاصد تعلیمی پر بات کی گئی ہے کہ یہ پالیسی ملی اور قومی مقاصد کے تابع  ہو گی۔ ۔ انہیں  پالیسیوں کے  نتیجے میں تعلیمی نظام موجود ہے ،  تعلیمی ادارے ہیں ، تعلیمی دفاتر ہیں ، تعلیمی وزارت ہے قومی نصاب بھی بنایا گیا ہے اور اس کے مطابق کتا ہیں بھی شائع  ہوتی ہیں جو قومی تعلیمی پالیس اور قومی نصاب پر درج مقاصد کو بظاہر پور ا کر رہی ہیں لیکن در حقیقت  قومی اور ملی  مقاصد کو باقاعدہ آگے بڑھانے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے اس کی وجہ طبقاتی نظام تعلیمی ہے ۔

گزشتہ دہائی میں پاکستان کا تعلیمی منظر کس طرح تبدیل ہوا ہے ، اور آپ نے کون سی بہتری دیکھی ہے؟

پاکستان گذشته دو عشروں میں تعلیمی منظر نامہ بہت تبدیلی ہوا ہے ۔ لیکن یہ زیادہ تر پرائیوٹ سیکٹر میں ہوا ۔ہزاروں اسکول ، کالج اور  یونی ورسٹیاں وجود میں آچکی ہیں مگر یہ قومی تعلیمی پالیسی اور مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف مالی اور غیر اسلامی مفاد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ ان میں زیر تعلیم طلبا و طالیات اور اساتذہ کی طور پر ایک اسلامی ملک افراد نہیں لگتے بلکہ ان کے ذریعے ہمارے معاشرہ میں غیر اسلامی نظریات کا فروغ ہو رہا ہے ۔ جب اسلامیات سمیت تمام مضامین انگریزی میں ہوں ان کا ہمارے ملک و معاشرہ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟؟

نجی اور سرکاری اسکول پاکستان کے تعلیمی نظام میں کیا کر دار ادا کرتے ہیں ، اور معیار اور رسائی کے لحاظ سے ان کا موازنہ کیسے کیا جب اسکتا ہے ؟

ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں تو دوسری طرف مادر پدر آزاد پرائیوٹ تعلیمی ادارے ہیں اور تیسری طرف مذہبی تعلیمی ادارے ہیں اسی طرح اس ملک میں ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو کہ دوسرے ممالک کے لئے یہاں کے ذہین وامیدوار  طلباء کو  تیار کر رہے ہیں ۔ اس چہار طرفہ طرز عمل میں قومی تعلیمی پالیسی اور  ملی قومی مقاصد اور قومی نصاب کہیں گم ہوگئے  ہیں ۔ پاکستان میں درس و تدریس سے وابستہ بیشتر افراد و اساتذہ اور تعلیمی منتظمین اور اور سرکاری افسران و وزارت تعلیم میں موجود افراد قومی تعلیمی پالیسی ، قومی وملتی مقاصد تعلیمی اور قومی نصاب سے ناواقف ہیں وہ قومی نصاب جو ہر تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور منتظمین کے پاس ہونا چاہیے اور ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری کی زینت اور ہر کتب فروش کے پاس موجود ہونا چاہیے تھا وہ متعلقہ وزارتوں اور منتظمین کے پاس ہونا چاہیے تھا وہ سب کے سب  یا بیشتر نا واقت ہیں تو آپ بتائیے کہ  ایک کیسے ہو گی ، قوم ملی مقاصد پر کیسے ایک ہو گی ؟

اساتذہ کی تربیت اور ترقی :

 

 اساتذہ کی تربیت کسی بھی تعلیمی نظام کا ایک اہم حصہ ہے ۔ آپ پاکستان میں موجوده اساتذہ کی تربیتی پروگراموں کو کیسے دیکھتے ہیں ؟

قیام پاکستان کے وقت صرف لاہور میں بی ٹی کی ٹرینگ ہوتی تھی  بعد میں ا ایوب خان دور میں پورے پاکستان کے تمام اہم شہروں میں  ٹیچرز ٹریننگ کرائی جائی لگی ۔ پی ٹی سی ، سی ٹی اور بی ایڈ اور ايم ایڈ ایک سال کے پروگرام سے اساتذہ کی کمی پوری کرنے میں مدد ملی۔  اساتذہ کے تربیتی پروگراموں میں صرف ڈگری کے حصول کے لئے تعلیم دی جاتی رہی ہے ۔ ملی  اور قومی مقاصد کو اولیت نہیں دی گئی اس لئے یہ تربیت پروگرام قومی کم اور ذاتی مفاد زیادہ پورا کرتے ہیں نیز اساتذہ کی تربیت کے لئے جس قسم کے ماسٹر ٹرینر کی ضرورت تھی وہ بہت کم مسیر آئے ۔ اب جبکہ کے تربیتی ادارے وجود میں آچکے ہیں امر کی ہے کہ اس ان اداروں کو ایجوکیشن اتھارٹی کونسل کے ماتحت کیا جائے تاکہ یہ اساتذہ ملک کے بہترین مفاد کا خیال رکھیں ۔ اس وقت تربیت اساتذه  کے لئے بہتر اور نیا نصاب چاہیے کہ وہ ایک قوم تیار کر سکیں نہ ایک پڑھا لکھ ہجوم ۔

 پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم اور تربیت میں سب سے بڑے خلا کیا ہیں ، اور ان کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے ؟

 تربیت یافتہ  اساتذہ میں  نئے زمانے اسلوب اختیار کئے جائیں ۔ اب بات سمعی اور بصری آلات سے آگے بڑھ چکی ہے اور اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال سے تربیت میں مدد لی جاسکتی ہے ۔ تربیت اساتذہ نظری کے ساتھ ساتھ عملی بھی ہونا چاہیے ۔ ہر اہم مضمون کے اہم حصوں کو کلاسز میں پڑھوا کر دیکھا جائے اور اس دوران تمام جدید سہولیات مہیا کی جائیں ۔ میٹرک ، انٹر اور ڈگری کلاسز میں ایجو کیشن کا مضمون لازمی کیا جائے اور اس دوران کلاس لینے کی عملی تربیت بھی دی جائے اس کے بعد جب افراد تعلیم و تربیت درستگی  پر اساتذہ کے اداروں میں باقاعدہ تربیت کے لئے جائیں تو بہترین ٹیچر بن کر کا عملی زندگی میں آئیں ِ

آپ کے خیال میں اساتذہ کی تربیت اور مسلسل پیشہ ورانہ ترقی میں ٹیکنالوجی کا کیا کردار ہے ؟

حکومت تعلیمی پالیسی بنا سکتی ہے ، تربیتی ادارے قائم کر سکتی ہے اور ان پر سرمایہ کاری کر سکتی ہے لیکن ان اداروں کی نگرانی حکومت کے بس سے باہر ہے ۔ پہلی بات تمام داخلے اور عہدے میرٹ پر ہوں ، سیاسی اثرات نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ نیز اس دور میں تعلیمی اتھارٹی تمام تربیتی اداروں سے رابطے میں ہو تمام اداروں کی الیکٹرانک نگرانی ہو یعنی کیمروں سے ان کے تربیتی پروگرام کو تعلیمی اتھارٹی نگرانی کرے یہ نگرانی اسی طرح ہونی چاہیے جن طرح سرحدوں کی نگرانی ہوتی ہے ۔ ہماری اندرونی سلامتی تربیتی اداروں کی بیشترین و نگرانی سے مشروط ہے۔

 شمولیت اور خصوصی تعلیم :

پاکستان کا تعلیمی نظام خصوصی ضرور توں والے طلباء اور سیکھنے کی دشواریوں کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے کس طرح زیادہ جامع بنایا جا سکتا ہے ؟ کیا اساتذہ کو اس حوالے سے تربیت دی جارہی ہے ؟

ابتدائی دو دھائیوں خصوصی ضرورت والے افراد کے صرف چند ا دارے تھے جن میں صرف امیروں کے خصوصی بچے زیر تعلیم ہوتے تھے ۔ ستر کی دھائی پاکستان میں تعلیمی ابتری کی تاریخ رکھتی ہے اسی کی دھائی میں خصوصی ضرورت والے بچوں کی موجودگی کو محسوس کیا گیا اور اس مقصد کے لئے گراں قدر کام کئے گئے ۔ ادارے بنائے گئے خاص طور پر ضیاء الحق کے دور میں خصوصی ضرورت والے بچوں کے لئے کافی ادارے قائم کئے گئے ، اس  سب کے باوجود خصوصی بچوں کے تعلیمی ادارے صرف امیر بچوں کے لئے مخصوص رہے اور غریب کا بچہ مجذوب ہی سمجھا گیا . اس کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ بھی ہوا کہ خصوصی بچوں کو تربیت دینے والے اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہوا مگر یہ اضافه بھی صرف امیر خواتین کیس میں ہوا جو کہ اپنے خصوصی بچوں کی وجہ سے اس میدان میں آئیں اور ضرورت پوری ہونے پر پر میدان سے چلی گئیں ۔ خصوصی بچوں کے لئے تربیت اساتذہ کا کوئی مصروف ادارہ وجود میں نہ آسکا جس سے عام افراد خاص  ہماری خواتین مشنری جذبہ سے معلما بالکل نا آشنا ہیں اور عوامی مفاد میں کام کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بچوں کے لئے اساتذہ کی تربیت کے لئے ہر صوبائی دار الحکومت اور تمام ضلعی صدر مقامات پر تربیتی ادارے قائم کئے جائیں جن میں جاب گارنٹی دی جائے –  سرکاری اور نجی اداروں میں زیادہ مراعات و سہولیات دی جائیں تاکہ عوامی سطح پر یہ جذبہ پیدا ہو ۔

آپ کی نظر میں  کیا اساتذہ مختلف پس منظر ، صنفی ،  معاشرتی ، اقتصادی اور علاقائی تنوع کے طلباء کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں ؟

ہمارے اساتذہ جو کہ خصوصی بچوں کی تربیت کے اداروں میں کام کرتے ہیں ۔ پھر ان کی ہر طرح کی تربیت کے لئے خصوصی اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ ملک میں خصوصی بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خصوصی بچوں  کے لئے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ۔ خصوصی بچوں کی تربیت کے لئے اساتذہ کے زیادہ تربیتی اور کے قائم کئے جائیں جو جدید دنیا سے ہم آہنگ ہوں اور پر امیر و غریب کی پہنچ  میں ہوں صرف امیروں کے لئے نہ ہوں ۔

محمد ظہیر عالم کی تجرباتی نگاہوں نے سب کوششوں کو ایک صفح پر کردیا ہے اور امید ہے کہ ہماری حکومت استاد اور طلباء وطالبات سب ایک فورم پر کام کریں گے ملکی مفاد کے لیے ۔

Interview to sansa website and interviewer Sana Zaheer .

Leave a Comment